یہ موت کی مجلس کوئی تہوار نہیں ہے
غم سوگ منانا یہاں دشوار نہیں ہے
جو امن کا پرچم لیئے بنتے ہیں جہادی
بڑھکر یہاں ان سے کوئی خونخوار نہیں ہے
وحشی و درندے ہیں یہ طالب یہاں ان کو
اسلام سے الله سے سروکار نہیں ہے
بوسیدہ ستونوں کا یہ کھنڈر سا محل ہے
لگنے کا یہاں اب کوئی دربار نہیں ہے
گفتار بلند بانگ ہے دعوے ہیں زبانی
عملاً تو کوئی قابل کردار نہیں ہے
دھتکار کے محفل سے نکالا گیا جس کو
غربت کا وہ مارا تھا جو زردار نہیں ہے
پہلے ہی بسے ہیں یہاں دکھ درد کے مارے
چلنے کا ادھر خوشیوں کا بازار نہیں ہے
قانون بھی اندھا ہے عملدار ہیں معذور
پھر بھی یہ حکومت یہاں لاچار نہیں ہے
جمہور کے نعروں کے پس پردہ ہے آمر
دراصل یہ ملت کا وفا دار نہیں ہے
تو جبر کو ظالم کے رقم کرتا رہا ہے
لکھنے کا تیرا وار یہ بیکار نہیں ہے
جو ظلم کے ہاتھوں کو مروڑے یہاں اشہر
مومن کوئی ایسا یہاں جی دار نہیں ہے