تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
Poet: امیر مینائی By: Zaid, Lahoreتیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
More Ameer Minai Poetry
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
سہرش
پہلے تو مجھے کہا نکالو پہلے تو مجھے کہا نکالو
پھر بولے غریب ہے بلا لو
بے دل رکھنے سے فائدہ کیا
تم جان سے مجھ کو مار ڈالو
اس نے بھی تو دیکھی ہیں یہ آنکھیں
آنکھ آرسی پر سمجھ کے ڈالو
آیا ہے وہ مہ بجھا بھی دو شمع
پروانوں کو بزم سے نکالو
گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر
یاں پیش ہے اور ماجرا لو
تکیے میں گیا تو میں پکارا
شب تیرہ ہے جاگو سونے والو
اور دن پہ امیرؔ تکیہ کب تک
تم بھی تو کچھ آپ کو سنبھالو
پھر بولے غریب ہے بلا لو
بے دل رکھنے سے فائدہ کیا
تم جان سے مجھ کو مار ڈالو
اس نے بھی تو دیکھی ہیں یہ آنکھیں
آنکھ آرسی پر سمجھ کے ڈالو
آیا ہے وہ مہ بجھا بھی دو شمع
پروانوں کو بزم سے نکالو
گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر
یاں پیش ہے اور ماجرا لو
تکیے میں گیا تو میں پکارا
شب تیرہ ہے جاگو سونے والو
اور دن پہ امیرؔ تکیہ کب تک
تم بھی تو کچھ آپ کو سنبھالو
Junaid
کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب الٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ مٹا دیا ان کا
نہیں کا ان کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اٹھے سو گئے جو پاؤں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ ہی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیہ تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیان کی جو شب غم کی بیکسی تو کہا
جگر میں درد نہ تھا دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی ان کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پاؤں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیرؔ
ادھر نمود ہوا اور ادھر حباب نہ تھا
تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا
نقاب الٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا
لپٹ کے چوم لیا منہ مٹا دیا ان کا
نہیں کا ان کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا
مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے
حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا
نصیب جاگ اٹھے سو گئے جو پاؤں مرے
تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا
غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا
ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا
زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا
فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا
تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو
اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا
دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر
مزہ ہی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا
میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیہ تھا
ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا
بیان کی جو شب غم کی بیکسی تو کہا
جگر میں درد نہ تھا دل میں اضطراب نہ تھا
وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم
ہنسی تھی ان کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا
جو لاش بھیجی تھی قاصد کی بھیجتے خط بھی
رسید وہ تو مرے خط کی تھی جواب نہ تھا
سرور قتل سے تھی ہاتھ پاؤں کو جنبش
وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا اضطراب نہ تھا
ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیرؔ
ادھر نمود ہوا اور ادھر حباب نہ تھا
zohaib
چاند سا چہرہ نور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ چاند سا چہرہ نور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
طرفہ نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
گل رخ نازک زلف ہے سنبل آنکھ ہے نرگس سیب زنخداں
حسن سے تم ہو غیرت گلشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
ساقیٔ بزم روز ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر شیشہ ہے گردن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ آفت جاں در پردہ لگاوٹ
چاہ کی تیور پیار کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
غمزہ اچکا عشوہ ہے ڈاکو قہر ادائیں سحر ہیں باتیں
چور نگاہیں ناز ہے رہزن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
نور کا تن ہے نور کے کپڑے اس پر کیا زیور کی چمک ہے
چھلے کنگن اکے جوشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
جمع کیا ضدین کو تم نے سختی ایسی نرمی ایسی
موم بدن ہے دل ہے آہن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
واہ امیرؔ ایسا ہو کہنا شعر ہیں یا معشوق کا گہنہ
صاف ہے بندش مضموں روشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
طرفہ نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
گل رخ نازک زلف ہے سنبل آنکھ ہے نرگس سیب زنخداں
حسن سے تم ہو غیرت گلشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
ساقیٔ بزم روز ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں
آنکھیں ہیں ساغر شیشہ ہے گردن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ آفت جاں در پردہ لگاوٹ
چاہ کی تیور پیار کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
غمزہ اچکا عشوہ ہے ڈاکو قہر ادائیں سحر ہیں باتیں
چور نگاہیں ناز ہے رہزن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
نور کا تن ہے نور کے کپڑے اس پر کیا زیور کی چمک ہے
چھلے کنگن اکے جوشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
جمع کیا ضدین کو تم نے سختی ایسی نرمی ایسی
موم بدن ہے دل ہے آہن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
واہ امیرؔ ایسا ہو کہنا شعر ہیں یا معشوق کا گہنہ
صاف ہے بندش مضموں روشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ
Laiba
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
Zaid






