ذکر تیرا ہر دم، میرے شعر میں غزل میں
تیری یاد کا بہانہ،یہی بات ہے اصل میں
تیرا جلال و جلوہ، نورِ قلب نے دیکھا
ادراک کر لے تیرا، طاقت نہیں عقل میں
تیرا کلام یا رب، حفاظ کے قلب میں
رکھا ہوا ہو جیسے، قرآن اَک رحل میں
محشر میں تیرے قرباں،سرِعام انکا جلوہ
یہ دید یہ نظارہ، کہاں خلد کے محل میں
سچی ہے میری نسبت،مجھ کو یہی غنیمت
کھوٹے ہیں سکے سارے، میرے دامنِ عمل میں
داتا فرید و خواجہ، ناپید اب وہ جذبہ
الجھا ہے آج سالک، اذکار میں شغل میں
مردار ہے یہ دنیا، عقل و نظر کا دھوکا
مومن کہاں پھنسے گا، اس ذلت و جہل میں