تیرا خیال ہے دل حیراں لیے ہوئے
یا ذرہ آفتاب کا ساماں لیے ہوئے
دیکھا انہیں جو دیدۂ حیراں لیے ہوئے
دل رہ گیا جراحت پنہاں لیے ہوئے
میں پھر ہوں التفات گریزاں کا منتظر
اک بار التفات گریزاں لیے ہوئے
میں چھیڑنے لگا ہوں پھر اپنی نئی غزل
آ جاؤ پھر تبسم پنہاں لیے ہوئے
کیا بے بسی ہے یہ کہ ترے غم کے ساتھ ساتھ
میں اپنے دل میں ہوں غم دوراں لیے ہوئے
فرقت تری تو ایک بہانہ تھی ورنہ دوست
دل یوں بھی ہے مرا غم پنہاں لیے ہوئے
اب قلب مضطرب میں نہیں تاب درد ہجر
اب آ بھی جاؤ درد کا درماں لیے ہوئے
صرف ایک شرط دیدۂ بینا ہے اے کلیم
ذرے بھی ہیں تجلی پنہاں لیے ہوئے
میں نے غزل کہی ہے جگر کی زمین میں
دل ہے مرا ندامت پنہاں لیے ہوئے
آزاد ذوق دید نہ ہو خام تو یہاں
ہر آئینہ ہے جلوۂ جاناں لیے ہوئے