تیرا عشق میرے من کو دباتا ہے
اور تن تیرے کوچےکی خاک اڑاتا ہے
جب تیرے سے گزرتا ہوں
شور اٹھتا ہے کہ مجنوں جاتا ہے
تجھ بن دیکھے جب گزر جائیں کئی دن
تیری اس غفلت پہ غصہ ذرا آتا ہے
مسکراہٹ تیری جب نظر آئے مائل بہ کرم
دل خود کو اول فلک پہ پاتا ہے
کوچے میں اس کے ویسے تو کئی شیدائی
مگر وہ ہم پر ہی واللہ کرم فرماتا ہے
نیت بری نہیں‘ عشق حریص نہیں
کیوں پھر یہ بشر روڑے اٹکاتا ہے؟
حیراں ہوں تضاد عشق پہ میں ‘ کہ
یہ پیر دیریں کیوں ٹانگ اڑاتا ہے؟
ناصر‘ اظہار یہ تیرا نہ بن جائے قیامت
وہ کہیں “ دل اب بھی کہیں لگاتا ہے“