ہر رنگ میں چا ہتوں کا اک فسانہ عید ہے
نغمئہ الفت میں ڈو با ہر ترانہ عید ہے
کھل اٹھیں گے آرزؤں کے دریچے اس دل میں آج
دیدار جاناں ملے تو گنگنانا عید ہے
یہ کھنکتی مرمریں ہاتھوں میں پل پل چوڑیاں
اور حسیں ہو نٹوں کا تیرے مسکرانا عید ہے
رنجشوں کو دامن دل سے بھلا کر اے دوست
سر محفل روٹھے ہوؤں کو منانا عید ہے
رسم دنیا ہی نبھانے تم چلے آؤ صنم
دو دلوں کے یہ ملن کا اک بہا نا عید ہے
انتظار عید کے قائل نہیں ہیں ہم معین
اک ادائے ناز سے بس تیرا آنا عید ہے