تیرا مقصود مدینہ ہے نہ کعبہ، کیا ہے
اور جانب کوئی منزل کوئی رستہ کیا ہے
اُس کی اور میری محبت کا وہی مرکز ہے
کون سمجھے گا مرا اُس سے یہ ناتا کیا ہے
ساگر دید مدینے کو ہی مرکز تُو بنا
یہ ادھر اور اُدھر ہو کے تو بہتا کیا ہے
میں تو گلیوں میں مدینے کی کئی بار گیا
جب بھی پہنچا تو کہا خود سے کہ دیکھا کیا ہے
میری جانب تُو مدینے سے چلا کر اے ہوا
اُن کے روضے سے نہ ہو آئے تو جھونکا کیا ہے
میں تو اس حرف کی نسبت سے یہی سمجھا ہوں
بعد اللہ، محمد نہ ہو، اپنا کیا ہے
کچھ بھی لکھو تو بہت سوچ کے لکھنا اظہر
ہے پکڑ اس کی، محمدﷺ پہ یہ لکھا کیا ہے