تیری فرقت میں ہے چہرہ غم زدہ کیا عید ہے
سب مناتے ہیں خوشی دل رو رہا کیا عید ہے
سامنے احباب کے لب پر مرے جهوٹی ہنسی
بن گیا ہے دل مرا ماتم کدہ کیا عید ہے
گهومتے پهرتے حسینو ں کی یہاں یلغار ہے
میں ہوں دیوانہ تری اک دید کا کیا عید ہے
جو یہاں خوش حال ہیں رکهتے ہیں جو مال و منال
مفلس و مجبور سے پوچهیں ذرا کیا عید ہے
وہ وہاں سج ڈهج کے گهر والوں میں ہیں اتنا مگن
یاد تک آیا نہ میں اس کو زرا کیا عید ہے
تیرے کوچے میں پڑے ہے غیر کی تجھ پر نظر
اور یہاں تڑپا کرے اپنا ترا کیا عید ہے
ہر ہلالِ عید زخم دل کے ہے جیسا لگے
کیا بتاؤں چاند ہے کیا عید کا کیا عید ہے
نور دلکش ہر خوشی کی بے وفائی دیکھ کر
صبر کی بهی ہو گئی ہے انتہا کیا عید ہے