تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا
جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا
شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا
یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا
تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا
افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے گیا
بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا