تیرے آگے سرکشی دکھلاوں گا؟
تو تو جو کہہ دے وہی بن جاؤں گا
اے زبوری پھول اے نیلے گلاب
مت خفا ہو میں دوبارہ آؤں گا
سات صدیاں سات راتیں سات دن
اک پہیلی ہے کسے سمجھاؤں گا
یار ہو جائے سہی تجھ سے مجھے
تیرے قبضے سے تجھے چھڑواؤں گا
تم بہت معصوم لڑکی ہو تمہیں
نظم بھیجوں گا دعا پہناؤں گا
کوئی دریا ہے نہ جنگل اور نہ باغ
میں یہاں بالکل نہیں رہ پاؤں گا
یاد کرواؤں گا تجھ کو تیرے زخم
تیری ساری نعمتیں گنواؤں گا
چھوڑنا اس کے لئے مشکل نہ ہو
مجھ سے مت کہنا میں یہ کر جاؤں گا
میں علیؔ زریون ہوں کافی ہے یہ
میں ظفر اقبال کیوں بن جاؤں گا