ڈر مجھ کو تیرا گردش ایام نہیں ہے
روشن ابھی اتنا تو میرا نام نہیں ہے
شاید کہ پس مرگ کھلے اس کی حقیقت
دنیا میں کہیں درد کا انجام نہیں ہے
اٹھتا ہے جہاں سے تیری بیداد کا مارا
حاصل اسے دنیا میں تو آرام نہیں ہے
یہ رنج و الم میرے مقدر کا لکھا ہے
اس باب میں کچھ آپ پہ الزام نہیں ہے
خود کو تُو مسلمان سمجھتا ہے لیکن
رومی ! تیرے اندر کہیں اسلام نہیں ہے