تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں
مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
تو آ چکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں
بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں
اے یار خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں
تو لوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں
یاں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر
اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں
خود ہی مثال لالۂ صحرا لہو لہو
اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں