برسوں کے رسم و رواج کو یوں ہے توڑا
پہلی ہی رات بیگم کے منہ پر تھپڑ چھوڑا
سب دیتے ہیں منہ دکھلائی میں قیمتی تحفہ
میں جا کر دیا کمر میں اک کرارا کوڑا
اس کی چیخوں نے سر پر اٹھا لیا آسمان
پکڑ کر بازو جو کمر کی جانب مروڑا
مانگنے لگی معافیاں دونوں ہاتھ جوڑ کر
رو رو کر ناک اس کی بن گئی پکوڑا
بھاگی جو بے چاری خوف سے ادھر ادھر
ہاتھ میں میرے پکڑا رہ گیا اس کا جوڑا
قدموں میں گر کر مانگنے لگی وہ معافی
سینہ اپنا ہو گیا پھول کر فخر سے چوڑا
اچانک ڈر کر اٹھ بیٹھا طاہر نیند سے
کسی نے آ کر صبح سویرے جھنجھوڑا
دیکھا جو اماں بیٹھی ہیں کرسی پر آرام سے
ابا جی بیٹھے دھو رہے ہیں کام کا جوڑا