جانے والے نے مرا حال جو پوچھا ہو گا
دل جگر تھام کے اک بار تو بیٹھا ہو گا
پھر دِلاسوں کی صدا اُٹھّی ہے خستہ گھر سے
پھر سے معصوم کوئی بھوک میں تڑپا ہو گا
مونسِ ظلمتِ شب ہو گا غمِ دل آخر
درد جب درد نہ ہو گا تو مسیحا ہو گا
شعلہ ساماں ہے بدَن لمس کی حدت سے مُنیبؔ
پھر وہ تصویر مری تھام کے سویا ہو گا