گر اسوہ حسنہ کو سمجھ لیتے تمدن
اغیار کے ہاتھوں سے یوں رسوا نہیں ہوتے
یہ درس اخوت نہیں ڈھونگ ہے واللہ
ورنہ کبھی افغان کے بچے نہیں روتے
یہ مردہ ضمیری ہے نہ کہ مصلحت اندیشی
یوں غیرت دیں لٹتی مسلمان کے ہوتے
غفلت سے ہو بیدار ذرا خود کو جھنجھوڑو
ایمان فروشی کی یہ میراث نہ چھوڑو
ڈرو حشر کی گرمی سے زمانے کے خداؤ
بھٹکے سے جہاں راہ سے وہیں لوٹ کےآو
اب نفرت وخود غرضی کی دیوار گرادو
توحید کے نعروں سے باطل کو مٹادو
پھر دیکھ ضیاء مہک اٹھی دل کی کلی ہے
شمشیر تمہاری ہے مگر زور علی ہے