جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا
سر پھوڑے نہ خود سے تو یہ تنہائی کرے کیا
گزری جو ادھر سے تو گھٹن سے یہ مرے گی
حبس دل وحشی میں یہ پروائی کرے کیا
کہتی ہے جو کہنے دو یہ دنیا مجھے کیا ہے
زندانی احساس میں رسوائی کرے کیا
ہر حسن و ادا دھنس گئے آئینے کے اندر
جب راکھ ہوں آنکھیں تو یہ زیبائی کرے کیا
وہ زخم کہ ہر لمس نیا زخم لگے ہے
بیماری ادراک مسیحائی کرے کیا
پل بھر کو یہ سودائے جنوں کم نہیں ہوتا
شہروں کے تکلف میں یہ سودائی کرے کیا