جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا
Poet: Zia Jalandhari By: sharjeel, khi
جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا
چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نارسائی کا بیاباں ہے کہ عرفاں اپنا
اس جگہ اہرمن اپنا ہے نہ یزداں اپنا
دم کی مہلت میں ہے تسخیر مہ و مہر کی دھن
سانس اک سلسلۂ خواب درخشاں اپنا
طلب اس کی ہے کہ جو سرحد امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں حائل ہے بیاباں اپنا
کیسی دوری اسی شعلے کی ہے ضو میرا جمال
جس سے تابندہ رہا دیدۂ گریاں اپنا
ارمغاں ہیں تری چاہت کے شگفتہ لمحے
بے خودی اپنی شب اپنی مہ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا
صبح گلزار ہوا سینۂ ویراں اپنا
ایسی گھڑیاں کئی مجھ ایسوں پہ آئی ہوں گی
وقت نے جن سے سجا رکھا ہے ایواں اپنا
More Zia Jalandhari Poetry
دکھ تماشا تو نہیں ہے کہ دکھائیں بابا دکھ تماشا تو نہیں ہے کہ دکھائیں بابا
رو چکے اور نہ اب ہم کو رلائیں بابا
کیسی دہشت ہے کہ خواہش سے بھی ڈر لگتا ہے
منجمد ہو گئی ہونٹوں پہ دعائیں بابا
موت ہے نرم دلی کے لیے بدنام ان میں
ہیں یہاں اور بھی کچھ ایسی بلائیں بابا
داغ دکھلائیں ہم ان کو تو یہ مٹ جائیں گے کیا
غم گساروں سے کہو یوں نہ ستائیں بابا
ہم صفیران چمن یاد تو کرتے ہوں گے
پر قفس تک نہیں آتیں وہ صدائیں بابا
پتے شاخوں سے برستے رہے اشکوں کی طرح
رات بھر چلتی رہیں تیز ہوائیں بابا
آگ جنگل میں بھڑکتی ہے ضیاؔ شہر میں بات
کیسے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھائیں بابا
رو چکے اور نہ اب ہم کو رلائیں بابا
کیسی دہشت ہے کہ خواہش سے بھی ڈر لگتا ہے
منجمد ہو گئی ہونٹوں پہ دعائیں بابا
موت ہے نرم دلی کے لیے بدنام ان میں
ہیں یہاں اور بھی کچھ ایسی بلائیں بابا
داغ دکھلائیں ہم ان کو تو یہ مٹ جائیں گے کیا
غم گساروں سے کہو یوں نہ ستائیں بابا
ہم صفیران چمن یاد تو کرتے ہوں گے
پر قفس تک نہیں آتیں وہ صدائیں بابا
پتے شاخوں سے برستے رہے اشکوں کی طرح
رات بھر چلتی رہیں تیز ہوائیں بابا
آگ جنگل میں بھڑکتی ہے ضیاؔ شہر میں بات
کیسے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھائیں بابا
asrar
چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا
رات دل پر غم دل صورت شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جڑیں سوکھتے جاتے ہیں شجر
ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے سجل تاروں کے مانند خیال
میری تنہائی پہ شب حسن جھما جھم برسا
کتنے ناپید اجالوں سے کیا ہے آباد
وہ اندھیرا جو مری آنکھوں پہ پیہم برسا
سرد جھونکوں نے کہی سونی رتوں سے کیا بات
کن تمناؤں کا خوں شاخوں سے تھم تھم برسا
قریہ قریہ تھی ضیاؔ حسرت آبادئ دل
قریہ قریہ وہی ویرانی کا عالم برسا
رات دل پر غم دل صورت شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جڑیں سوکھتے جاتے ہیں شجر
ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے سجل تاروں کے مانند خیال
میری تنہائی پہ شب حسن جھما جھم برسا
کتنے ناپید اجالوں سے کیا ہے آباد
وہ اندھیرا جو مری آنکھوں پہ پیہم برسا
سرد جھونکوں نے کہی سونی رتوں سے کیا بات
کن تمناؤں کا خوں شاخوں سے تھم تھم برسا
قریہ قریہ تھی ضیاؔ حسرت آبادئ دل
قریہ قریہ وہی ویرانی کا عالم برسا
Faizan
جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا جب انہی کو نہ سنا پائے غم جاں اپنا
چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نارسائی کا بیاباں ہے کہ عرفاں اپنا
اس جگہ اہرمن اپنا ہے نہ یزداں اپنا
دم کی مہلت میں ہے تسخیر مہ و مہر کی دھن
سانس اک سلسلۂ خواب درخشاں اپنا
طلب اس کی ہے کہ جو سرحد امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں حائل ہے بیاباں اپنا
کیسی دوری اسی شعلے کی ہے ضو میرا جمال
جس سے تابندہ رہا دیدۂ گریاں اپنا
ارمغاں ہیں تری چاہت کے شگفتہ لمحے
بے خودی اپنی شب اپنی مہ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا
صبح گلزار ہوا سینۂ ویراں اپنا
ایسی گھڑیاں کئی مجھ ایسوں پہ آئی ہوں گی
وقت نے جن سے سجا رکھا ہے ایواں اپنا
چپ لگی ایسی کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نارسائی کا بیاباں ہے کہ عرفاں اپنا
اس جگہ اہرمن اپنا ہے نہ یزداں اپنا
دم کی مہلت میں ہے تسخیر مہ و مہر کی دھن
سانس اک سلسلۂ خواب درخشاں اپنا
طلب اس کی ہے کہ جو سرحد امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں حائل ہے بیاباں اپنا
کیسی دوری اسی شعلے کی ہے ضو میرا جمال
جس سے تابندہ رہا دیدۂ گریاں اپنا
ارمغاں ہیں تری چاہت کے شگفتہ لمحے
بے خودی اپنی شب اپنی مہ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا
صبح گلزار ہوا سینۂ ویراں اپنا
ایسی گھڑیاں کئی مجھ ایسوں پہ آئی ہوں گی
وقت نے جن سے سجا رکھا ہے ایواں اپنا
sharjeel
اپنے احوال پہ ہم آپ تھے حیراں بابا اپنے احوال پہ ہم آپ تھے حیراں بابا
آنکھ دریا تھی مگر دل تھا بیاباں بابا
یہ وہ آنسو ہیں جو اندر کی طرف گرتے ہیں
ہوں بھی تو ہم نظر آتے نہیں گریاں بابا
اس قدر صدمہ ہے کیوں ایک دل ویراں پر
شہر کے شہر یہاں ہو گئے ویراں بابا
یہ شب و روز کے ہنگاموں سے سہمے ہوئے لوگ
رہتے ہیں موج صبا سے بھی ہراساں بابا
اونچی دیواروں سے باہر نکل آئے تو کھلا
ہم نے سینوں میں بنا رکھے ہیں زنداں بابا
خوش گماں ہو کے نہ بیٹھ ان در و دیوار سے پوچھ
اہل خانہ بھی ہیں کچھ روز کے مہماں بابا
یخ ہواؤں سے مجھے آتی ہے خوشبوئے بہار
شعلۂ گل کی امیں ہے یہ زمستاں بابا
گرد باد آئیں کہ گرداب، بیاباں ہو کہ بحر
زندگی ہوتی ہے آپ اپنی نگہباں بابا
گئی رت لوٹ بھی آتی ہے ضیاؔ حوصلہ رکھ
ہم نے دیکھی ہیں سیہ شاخوں پہ کلیاں بابا
آنکھ دریا تھی مگر دل تھا بیاباں بابا
یہ وہ آنسو ہیں جو اندر کی طرف گرتے ہیں
ہوں بھی تو ہم نظر آتے نہیں گریاں بابا
اس قدر صدمہ ہے کیوں ایک دل ویراں پر
شہر کے شہر یہاں ہو گئے ویراں بابا
یہ شب و روز کے ہنگاموں سے سہمے ہوئے لوگ
رہتے ہیں موج صبا سے بھی ہراساں بابا
اونچی دیواروں سے باہر نکل آئے تو کھلا
ہم نے سینوں میں بنا رکھے ہیں زنداں بابا
خوش گماں ہو کے نہ بیٹھ ان در و دیوار سے پوچھ
اہل خانہ بھی ہیں کچھ روز کے مہماں بابا
یخ ہواؤں سے مجھے آتی ہے خوشبوئے بہار
شعلۂ گل کی امیں ہے یہ زمستاں بابا
گرد باد آئیں کہ گرداب، بیاباں ہو کہ بحر
زندگی ہوتی ہے آپ اپنی نگہباں بابا
گئی رت لوٹ بھی آتی ہے ضیاؔ حوصلہ رکھ
ہم نے دیکھی ہیں سیہ شاخوں پہ کلیاں بابا
abid






