جب اپنے نغمے نہ اپنی زباں تک آئے
ترے حضور ہم آ کر بہت ہی پچھتائے
خیال بن نہ سکا نغمہ گرچہ ہم نے اسے
ہزار طرح کے ملبوس لفظ پہنائے
یہ حسن و رنگ کا طوفاں ہے معاذ اللہ
نگاہ جم نہ سکے اور تھک کے رہ گئے
جو درد اٹھے بھی تو اظہار اس کا ہو کیونکر
حضور حسن اگر آواز بیٹھ ہی جائے
ہٹے نظر سے نہ فرقت کی دھوپ میں آزادؔ
کسی کی سنبل شب رنگ کے گھنے سائے