جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا
Poet: Ehsan Danish By: vaneeza, isl
جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا
وقت کا سیل ٹھہر جائے گا
چاند تم دیکھ رہے ہو جس کو
یہ بھی آنسو سا ڈھلک جائے گا
ایک دو موڑ ہی مڑ کر انساں
بام گردوں کی خبر لائے گا
میں نے دیکھے ہیں چمن بے پردہ
کوئی گل کیا مرے منہ آئے گا
حسن سے دور ہی رہنا بہتر
جو ملے گا وہی پچھتائے گا
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
ان کی زلفوں کی مہک لے دانشؔ
اس دھندلکے کو کہاں پائے گا
More Ehsan Danish Poetry
آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی
قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی
پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا
ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی
آج کیا سوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو
دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی
روح مجنوں ابھی بیتاب ہے صحراؤں میں
خاک بے وجہ نہیں اڑتی بیابانوں کی
اس نے احسانؔ کچھ اس ناز سے مڑ کر دیکھا
دل میں تصویر اتر آئی پری خانوں کی
قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی
پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا
ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی
آج کیا سوجھ رہی ہے ترے دیوانوں کو
دھجیاں ڈھونڈھتے پھرتے ہیں گریبانوں کی
روح مجنوں ابھی بیتاب ہے صحراؤں میں
خاک بے وجہ نہیں اڑتی بیابانوں کی
اس نے احسانؔ کچھ اس ناز سے مڑ کر دیکھا
دل میں تصویر اتر آئی پری خانوں کی
Manahil
جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا
شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
ترا علاج شفا گاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر یہ سیاہی کفن چھپائے گا
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولہ تھکن چھپائے گا
کھلے گا باد نفس سے جو رخ پہ نیل کنول
اسے کہاں ترا اجلا بدن چھپائے گا
ترے کمال کے دھبے ترے عروج کے داغ
چھپائے گا تو کوئی اہل فن چھپائے گا
جسے ہے فیض مری خانقاہ سے دانشؔ
وہ کس طرح مرا رنگ سخن چھپائے گا
شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
ترا علاج شفا گاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر یہ سیاہی کفن چھپائے گا
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولہ تھکن چھپائے گا
کھلے گا باد نفس سے جو رخ پہ نیل کنول
اسے کہاں ترا اجلا بدن چھپائے گا
ترے کمال کے دھبے ترے عروج کے داغ
چھپائے گا تو کوئی اہل فن چھپائے گا
جسے ہے فیض مری خانقاہ سے دانشؔ
وہ کس طرح مرا رنگ سخن چھپائے گا
kanwal
جب رخ حسن سے نقاب اٹھا جب رخ حسن سے نقاب اٹھا
بن کے ہر ذرہ آفتاب اٹھا
ڈوبی جاتی ہے ضبط کی کشتی
دل میں طوفان اضطراب اٹھا
مرنے والے فنا بھی پردہ ہے
اٹھ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا
شاہد مئے کی خلوتوں میں پہنچ
پردۂ نشۂ شراب اٹھا
ہم تو آنکھوں کا نور کھو بیٹھے
ان کے چہرے سے کیا نقاب اٹھا
عالم حسن سادگی توبہ
عشق کھا کھا کے پیچ و تاب اٹھا
ہوش نقص خودی ہے اے احسانؔ
لا اٹھا شیشۂ شراب اٹھا
بن کے ہر ذرہ آفتاب اٹھا
ڈوبی جاتی ہے ضبط کی کشتی
دل میں طوفان اضطراب اٹھا
مرنے والے فنا بھی پردہ ہے
اٹھ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا
شاہد مئے کی خلوتوں میں پہنچ
پردۂ نشۂ شراب اٹھا
ہم تو آنکھوں کا نور کھو بیٹھے
ان کے چہرے سے کیا نقاب اٹھا
عالم حسن سادگی توبہ
عشق کھا کھا کے پیچ و تاب اٹھا
ہوش نقص خودی ہے اے احسانؔ
لا اٹھا شیشۂ شراب اٹھا
luqman
جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا جب بھی خلوت میں وہ یاد آئے گا
وقت کا سیل ٹھہر جائے گا
چاند تم دیکھ رہے ہو جس کو
یہ بھی آنسو سا ڈھلک جائے گا
ایک دو موڑ ہی مڑ کر انساں
بام گردوں کی خبر لائے گا
میں نے دیکھے ہیں چمن بے پردہ
کوئی گل کیا مرے منہ آئے گا
حسن سے دور ہی رہنا بہتر
جو ملے گا وہی پچھتائے گا
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
ان کی زلفوں کی مہک لے دانشؔ
اس دھندلکے کو کہاں پائے گا
وقت کا سیل ٹھہر جائے گا
چاند تم دیکھ رہے ہو جس کو
یہ بھی آنسو سا ڈھلک جائے گا
ایک دو موڑ ہی مڑ کر انساں
بام گردوں کی خبر لائے گا
میں نے دیکھے ہیں چمن بے پردہ
کوئی گل کیا مرے منہ آئے گا
حسن سے دور ہی رہنا بہتر
جو ملے گا وہی پچھتائے گا
اور کچھ دیر ستارو ٹھہرو
اس کا وعدہ ہے ضرور آئے گا
ان کی زلفوں کی مہک لے دانشؔ
اس دھندلکے کو کہاں پائے گا
vaneeza
توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا
“پی“! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!
“آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا“!
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا!
“پی“! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!
“آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا“!
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا!
Luqman







