ہم جب بھی کہیں تازہ کلام سنانے گئے
اس کے بعد ہم سیدھے تھانے گئے
ہر بار مایوس ہو کر گھر لوٹے
جب بھی کسی دوست کو آزمانے گئے
مگرمچھوں کو ہم سے پیار ہونے لگا
کبھی سمندر میں جو ہم نہانے گئے
کوئی نہ کوئی ہڈی پسلی تڑوا کےآئے
اکھاڑے میں جب بھی زور آزمانے گئے
جنہیں ہم نے منہ زبانی خوشیاں بخشیں اصغر
ان کی نظروں میں ہم شاعر نہ مانے گئے