جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے
رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہین وفا ہوتی ہے
منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے
اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے
غم کی بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
غمگسار سفرِ راہِ وفا
مژۂ آبلہ پا ہوتی ہے
گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے
جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے
حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
جب کوئی غم نہیںہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے