جب سے ہم نے تمہیں کرسی پہ بٹھا رکھا ہے
تو نے ہم سب کو انگاروں پہ لٹا رکھا ہے
ڈالروں اب ہمیں دوزخ سے ڈراتے کیوں ہو
ہم نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
کر لےکرنا ہے جو بھی احتساب نے انکا
سارا پیسہ تو جنیوا میں چھپا رکھا ہے
جانا ہو ملنے تو اب احتیاط سے جانا
ابکے محبوب نے کتا بھی نیا رکھا ہے
اس ضدی بچے کو ہی ہم ضمیر کہتے ہیں
لوریاں دے کے جسے تم نے سلا رکھا ہے
پھر رہا ہے وہ ایسے جعلی ڈگریاں کے کر
گدھے نے سر پہ جیسے سینگ سجا رکھا ہے
جو بھی اچھے ہیں انہیں لفٹ ہی نہیں کوئی
لوٹوں کے واسطے ہر ووٹ بچا رکھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر کاظمی کی روح سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوٹے اور لٹیرے غصے کو قابو میں رکھ کے پڑھیں۔۔۔۔ شکریہ