جب سے یہ زندگی ملی ہے ہمیں
چبھ رہا ہے غبار آنکھوں میں
آئینہ دل میں ٹوٹ جاتا ہے
کرچیوں کا شمار آنکھوں میں
بے بسی ہائے تمنا مت پوچھ
جم گیا انتظار آنکھوں میں
اک سودا ہمارے ذہن میں ہے
اور اس کا خمار آنکھوں میں
کر رہا ہے پناہ گاہیں تلاش
دل افسردہ کار آنکھوں میں
آنسوئوں کے لیے بنی رضوی
درد کی رہگزار آنکھوں میں