جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا
ڈوبا ہوا خورشید سمندر سے نکالا
ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم
سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا
جب چاند نمودار ہوا دور افق پر
ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا
دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے
اک اور ہی مفہوم گل تر سے نکالا
اس مرد شفق فام نے اک اسم پڑھا اور
شہزادی کو دیوار کے اندر سے نکالا