جبیں کی دھول جگر کی جلن چھپائے گا
شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
ترا علاج شفا گاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر یہ سیاہی کفن چھپائے گا
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولہ تھکن چھپائے گا
کھلے گا باد نفس سے جو رخ پہ نیل کنول
اسے کہاں ترا اجلا بدن چھپائے گا
ترے کمال کے دھبے ترے عروج کے داغ
چھپائے گا تو کوئی اہل فن چھپائے گا
جسے ہے فیض مری خانقاہ سے دانشؔ
وہ کس طرح مرا رنگ سخن چھپائے گا