جس کی سوندھی سوندھی خوشبو آنگن آنگن پلتی تھی
Poet: حماد نیازی By: Sahir, Swatجس کی سوندھی سوندھی خوشبو آنگن آنگن پلتی تھی
اس مٹی کا بوجھ اٹھاتے جسم کی مٹی گلتی تھی
جس کو تاپ کے گرم لحافوں میں بچے سو جاتے تھے
دل کے چولھے میں ہر دم وہ آگ برابر جلتی تھی
گرم دوپہروں میں جلتے صحنوں میں جھاڑو دیتے تھے
جن بوڑھے ہاتھوں سے پک کر روٹی پھول میں ڈھلتی تھی
کسی کہانی میں ویرانی میں جب دل گھبراتا تھا
کسی عزیز دعا کی خوشبو ساتھ ہمارے چلتی تھی
گرد اڑاتے زرد بگولے در پر دستک دیتے تھے
اور خستہ دیواروں کی پل بھر میں شکل بدلتی تھی
خشک کھجور کے پتوں سے جب نیند کا بستر سجتا تھا
خواب نگر کی شہزادی گلیوں میں آن نکلتی تھی
دن آتا تھا اور سینے میں شام کا خاکہ بنتا تھا
شام آتی تھی اور جسموں میں شام بھی آخر ڈھلتی تھی
More Father Poetry






