جس کے لئے ہنستے ہوئے دل دوستو ہارا
اس نے ہی سرِ دشت ہمیں دوستو مارا
یہ میری غزل گوئی نئی بات نہیں ہے
تنہائی کی راتوں میں رہا یہ ہی سہارا
دل خوف سے دھڑکا ہے اسی راہ پہ چونکہ
پتھر نے کسی راہ کہ پھر مجھ کو پکارا
میں چپ رہی سن کر یہ صدا عشق وہاں پر
ہاں دل میں کہیں ٹوٹ کے بکھرا مرا تارا
روتے ہیں کئی لفظ تری غزلوں کے وشمہ
اس درد کو قرطاس پہ کیوں تو نے اتارا