جفا بھی دیکھی بھلائی بھی دیکھی ہم نے
تیری دوستی سے رسوائی بھی دیکھی ہم نے
ان ہی آنکھوں میں صورت رہتی ہے تیری
تیرے خیال سے اپنی کبھی نہ رہائی بھی دیکھی ہم نے
گلستاں میں کیا کیا تماشا نہ دیکھا
شاخ پے گل کی انگڑائی بھی دیکھی ہم نے
جب وعدہ نبھانے کی باری جو آئی
جکھتے جکھتے اس کی بڑائی بھی دیکھی ہم نے
ہائے تم کو کس کس کا قصہ سنائے ہم
دل جگر کی سن جدائی بھی دیکھی ہم نے
کس نازک ادا سے شبنم نے پھول کو دھویا
چمن میں اسی کبھی نہ صفائی بھی دیکھی ہم نے
ماہ کے ماتھے پے اک داغ تو نظر آتا ہے قلزم
پر قسم خدا کی اس میں کبھی نہ برائی بھی دیکھی ہم نے