وجود ہے ناتواں، ہمت مگر ضرور کرتا ہے
جلا کر نفس کو جگنو، اندھیرا دُور کرتا ہے
سفرِ تیرگی میں اِک، بھلی اُمید ہے جگنو
ظلمت کے نگر میں، ساعتِ سعید ہے جگنو
کہنے کو یہ جگنو اِک، بہت حقیر پیکر ہے
قریب اہلِ نظر کے یہ، مگر فقیر پیکر ہے
سراپا نور ہے فطرت، امن پیغام جگنو کا
لیا جاتا ہے اچھوں میں، سدا ہی نام جگنو کا
اگرچہ ساتھ ہیں رہتے، مگر مسئلہ نہیں ہوتا
کسی جگنو کو جگنو سے، کوئی خطرہ نہیں ہوتا
اچھی یاد کا دل کو، خوشی دینا بھی جگنو ہے
کسی روتے کے چہرے پر، ہنسی دینا بھی جگنو ہے
ہے چمک و بھڑک فطرت، مگر ہے بے ضرر ہستی
نہیں شعلہ مزاجی ہے، یوں شعلہ فام ہو کر بھی
کسی کو رنج نہ پہنچے، نہ کچھ کوئی اذیت ہو
جہاں میں ہر بشر اے کاش کہ جگنو طبیعت ہو
قلم کو بھر کے جگنو سے، ہے حاوی اتنا بس لکھتا
اگر ہر سوچ ہو جگنو، تو جنت سی ہو یہ دُنیا