جلوہ عیاں ہے قدرت پروردگار کا
کیا دل کشا یہ سین ہے فصل بہار کا
نازاں ہیں جوش حسن پہ گل ہائے دل فریب
جوبن دکھا رہا ہے یہ عالم ابھار کا
ہیں دیدنی بنفشہ و سنبل کے پیچ و تاب
نقشہ کھینچا ہوا ہے خط و زلف یار کا
سبزہ ہے یا یہ آب زمرد کی موج ہے
شبنم ہے بحر یا گہر آبدار کا
مرغان باغ زمزمہ سنجی میں محو ہیں
اور ناچ ہو رہا ہے نسیم بہار کا
پرواز میں ہیں تیتریاں شاد و چست و مست
زیب بدن کیے ہوئے خلعت بہار کا
موج ہوا و زمزمۂ عندلیب مست
اک ساز دلنواز ہے مضراب و تار کا
ابر تنک نے رونق موسم بڑھائی ہے
غازہ بنا ہے روئے عروس بہار کا
افسوس اس سماں میں بھی اکبرؔ اداس ہے
سوہان روح ہجر ہے اک گل عذار کا