جن پہ تکیہ تھا وہ پتے ہوا دینے لگے
محو حیرت ہوں دشمن دعا دینے لگے
جن سے کی اُمید وفا ہم نے کبھی
ہلکے ہلکے وہ ہمیں پیغامِ جفا دینے لگے
جن کو سمجھا تھا کہ وہ زہر آلود ہیں
تریاق بن کر وہ شفا دینے لگے
منصف نے آمر کی راہ ہموار کی
وہ فیصلے، ہو کر خَفا ، دینے لگے
مالک ہے وہ مُلک کا جسے چاہے دے
صداے تنزع الملک ممن تشاء دینے لگے
حیات سے ہے موت اور موت سے حیات ہے
وہ بے حساب من تشاء دینے لگے
جوڑ جوڑ رکھ رہے ہو دولت کیوں نعمان تم
دو زرا مخلوق کو تم کو خُدا دینے لگے