جن کو اللہ سے بس اللہ سے ڈرتے دیکھا
نار کو ان کے لیئے پھولوں میں ڈھلتے دیکھا
ہم نے پتهر کے پہاڑوں کو پگهلتے دیکها
اور پانی کو بهی اس دنیا میں جمتے دیکها
جسم تو جسم ہیں احساس تحفظ کے لیئے
میں نے دیوار سے چھاؤں کو لپٹتے دیکھا
ان گلی کوچوں میں ہے رقص اندهیروں کا جہاں
ہم نے اس چاند کو سج دهج کے گزرتے دیکها
لاش اک سطح تالاب پہ آجاتی ہے
خواب اک آنکھ پہ ہر رات ابھرتے دیکھا
ہم نے دیکھا تھا فلک پر ہی چمکتا سورج
ایک دن پھر وہ گلی سے بھی گذرتا دیکھا
برف میں آگ لگارکھی تھی دو شمعوں نے
سخت سردی میں بھی دو جسموں کو جلتے دیکھا