جن کو سمجھا تھا سبھی چھوڑ ہمیں یار گئے
کچھ تعلق بھی تھے ایسے جو ہمیں مار گئے
ہم کو منزل کا پتہ ہے نہ خبر رستے کی
جانے وہ کون سے تھے لوگ جو اس پار گئے
تو نے بانٹی ہی نہیں پیار کی سوغات کبھی
تری گلیوں سے تہی دست ہی ہر بار گئے
ایسی حسرت سے مجھے دیکھتے ہیں اہل سخن
جیسے محفل سے سبھی لوگ پیں دلدار گئے
شان مقتل رہے باقی بھلے یہ جاں نہ رہے
وہی معراج وفا تھی جو سوئے دار گئے
خود کو داؤ پہ لگا کے کسی پونجی کی طرح
ہم نے کھیلی تھی جو بازی وہ غزل ہارگئے