جو اس کے سامنے میرا یہ حال آ جائے
تو دکھ سے اور بھی اس پر جمال آ جائے
مرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا
اگر خیال کو تیرا خیال آ جائے
ہر ایک شام نئے خواب اس پہ کاڑھیں گے
ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آ جائے
انہی دنوں وہ مرے ساتھ چائے پیتا تھا
کہیں سے کاش مرا پچھلا سال آ جائے
میں اپنے غم کے خزانے کہاں چھپاؤں گا
اگر کہیں سے کوئی اندمال آ جائے
ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے
ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈال آ جائے
یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصیؔ
اگر وہ سامنے وقت زوال آ جائے