خدا کی یاد جو دل ہمیشہ شاد ہوتا ہے
بظاہر تو وہ خستہ ہو مگر آباد ہوتا ہے
خدا کے عشق میں جو خود سے ہی بیگانہ ہو جائے
پھر اُس کے سامنے کیا قیس کیا فرہاد ہوتا ہے
جو آجائے میرے معبود کی آغوشِ رحمت میں
غمِ دنیائے فانی سے وہی آزاد ہوتا ہے
سنبھل کے رکھ قدم اے دل تو راہِ زندگانی میں
یہاں پر ہر قدم پہ خطرۂ صیّاد ہوتا ہے
اُٹھانا سر نہیں فیصلؔ کبھی تم اُن کی چوکھٹ سے
جو اُن کا آستاں چھوڑے وہی برباد ہوتا ہے