جو بھی چاہا اس نے اب تک اس کی اپنی مرضی ہے
پیار چاہت ہے تماشا اس کا سب کچھ فرضی ہے
یہ نشانی تم کو دی ہے جب بھی تنہا ہونا تم
یاد تیری میں یہ دنیا خوشبو سے اب بھر دی ہے
اک کہانی ہے عجب سی جو سنائی تھی کبھی
جس میں نفرت انتہا کی اس نے مجھ سے کردی ہے
کیوں یہ کرنیں تیرے چہرے کا ہی بوسا لیتی ہیں
کام کیسا ہے یہ ان کا کیسی یہ سر گرمی ہے
اشک بن کر خون دل کا دیکھو کب تک گرتا ہے
ایسی حالت دیکھ کر جو اس نے اپنی کرلی ہے
تم کو عامر کیسے ملتے اس جہاں میں وہ کبھی
خواہشوں میں تم سے بڑھ کر ان میں بھی خود غرضی ہے