جو دانہ خاک میں مل جائے تو گلزار بنتا ہے
مٹا دے اپنی ہستی تو کوئی سالار بنتا ہے
کوئی عطّار کے جب پاس ہو تو خوشبو ملتی ہے
ملے صحبت بھلی تو پھر فرمانبردار بنتا ہے
کوئی بھی سنگ دل گر ہو تو وہ بھی موم ہوجائے
کوئی اخلاق اور احسان سے لاچار بنتا ہے
محبت کی تو راہوں میں خِرد بالکل نہیں چلتی
کوئی ہوش و خرد میں ڈوب کر ناچار بنتا ہے
حضورِ شمع تو پروانے جل کر مٹ ہی جاتے ہیں
جو پِندارٍ خودی کو توڑ دے دلدار بنتا ہے
نگاہیں مادیت پر ہوں تو نصرت سے ہو دوری
کرم ان کا نہ ہو تو کام بھی دشوار بنتا ہے
کبھی طوفاں کی موجوں میں تو کشتی کی حفاظت ہو
کبھی آتش میں رہ کر بھی نہ تو انگار بنتاہے
چمن کی آبیاری ہو یہی ہو مدعا اپنا
کبھی تو اثر کا پیغام بھی اِقرار بنتا ہے