جو مدعا ہے اپنا بالکل عیاں رہے گا
مایوس ہو کے جینا زیبا کبھی نہ دے گا
آئے گی روشنی بھی ظلمت کے ہی تو پیچھے
قدموں میں ہو گی منزل جو حوصلہ بڑھے گا
تم ہی رہوگے اعلٰی تم ہی رہو گے ارفع
کس کی طرف اشارا ہے کون وہ بنے گا
ہم نے بھلا دیا ہے اسلاف کا نمونہ
پیش نظر وہ ہو تو کیا کچھ نہ ہو سکے گا
یہ زندگی تو اپنی ہے خوبیوں سے عاری
نہ أہ میں اثر ہے کیوں عرش بھی ہلے گا
نہ حوصلہ ہے باقی کیسی یہ مایوسی ہے
نہ عزم کی بلندی کب تک یہ سب چلے گا
اس کے سوا جہاں میں نہ کوئی بھی ہمارا
پستی یا سر بلندی وہ فیصلہ کرے گا
اپنی خودی مٹا کر دردِ جگر ہے لینا
اشکوں کے موتیوں سے دامن ہی تو بھرے گا
چاہت یہ اثر کی ہے اس سے ہی لو لگائیں
اس کا کرم جو ہوگا ہر مدعا ملے گا