ہر محفل میں دوست دو چار بناتاہوں
مگر ساتھ ہی دشمن بےشمار بناتاہوں
نا جانے کب کوئی بھولا بھٹکا آجائے
اپنےخالی دل میں بام و در بناتا ہوں
دنیا میں سچےدوست ملنےمشکل ہیں
افسانوی کرداروں کو یار بناتا ہوں
سوہنی کا کچا گھڑا اسےلےناڈوبے
اسی لیےکاغذ کی ناؤ کہ پتوار بناتا ہوں
جو میری پڑوسنوں کے دل موم کردیں
اپنےسخن سےایسےاشعاربناتا ہوں