جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر
فُرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر
سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے
جو کشتیٔ حق کا بادباں ہے سلام اس پر
جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں
وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر
مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی
جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر
ہر اِک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی
وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر
حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضوفشاں ہے
جو سب ضمیروں میں ضوفشاں ہے سلام اس پر
کبھی چراغِ حرم، کبھی صبح کا ستارہ
وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر
میں جلتے جسموں نئے طلسموں میں گِھر چکا ہوں
وہ ابرِ رحمت ہے سائباں ہے سلام اس پر
شفق میں جھلکے کہ گردنِ اہلِ حق سے چھلکے
لہو تمھارا جہاں جہاں ہے سلام اس پر