جو چشم کرم ان کی ہم پر پڑے گی
تو بگڑی ہماری اسی سے بنے گی
پکاریں گے ہم تو ہمیشہ ہی ان کو
جو کشتی ہماری بھنور میں پھنسے گی
جو لیں گے سہارا کسی اور کاہی
تو ٹھوکر بھی ہم کو اسی سے ملے گی
جو ان کے ہی در پہ رہیں گے ہمیشہ
تو حاجت کسی اور کی نہ رہے گی
ملے جو رفاقت ہی ان کی کسی کو
تو چاہت نہ اوروں کی اس کو رہے گی
زمانہ جو آیا ہے بے پردگی کا
اسی سے حیا اور عِفَّت گھٹے گی
زمانے کا شکوہ نہ ہو اب زباں سے
جو ہو فضل ان کا تو ذِلَّت ہٹے گی
اٹھے گی نہ انگلی کسی کی طرف بھی
جو اپنی کمی پر نظر بھی پڑے گی
کسی کی برائی نہ دل میں ہی آئے
اسی کی تو کوشش ہمیشہ رہے گی
ارادے جو اپنے ہی پختہ رہیں کے
تو منزل بھی قدموں میں اپنے گرے گی
کبھی دل اثر کا لگے نہ جہاں میں
جو ان کی حضوری ہی ملتی رہے گی