جواں بچوں پہ سختی کر رہے ہیں
خود اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں
بہشتوں سے نکالے جانے والے
زمیں پر موج مستی کر رہے ہیں
میں جن کے غم میں آدھا رہ گیا ہوں
وہ اپنی بات پوری کر رہے ہیں
جنہوں نے آپ کو آقا نہ مانا
وہ دنیا کی غلامی کر رہے ہیں
یہ کس کی ناؤ اتری پانیوں میں
جزیرے ڈوبنے کی کر رہے ہیں
سمندر ٹھیک ہیں اپنی جگہ پر
مچھیرے چھیڑخانی کر رہے ہیں
افق پر اڑ رہی ہیں فاختائیں
نہ لشکر پیش قدمی کر رہے ہیں
ستارے کیا بتائیں راستوں کا
ہمیں آوارہ گردی کر رہے ہیں