جوں جوں مدینہ قریب آرہا تھا
سرور مجھ کو عجیب آرہا تھا
حسرت تھی دل کی مدینہ جا کے
اپنی آنکھیں فرشوں بچھا کے
روضہ کے سامنے سر کو جھکا لوں
درود و سلام کہوں اور خود کو مٹا لوں
کملی والے کی گلیوں میں پھرتا رہوں
دھول گلیوں کی آنکھوں میں بھرتا رہوں
مدینہ کی گلیوں سے میں جب گزرتا گیا
لگا کہ نور کا دروازہ جیسے کھلتا گیا
پہنچا میں جب روضہ رسول پر
کپکپی طاری ہوگئی مجھ گنہگار پر
کہاں سرور دوعالم کہاں یہ بندہ حقیر
کھڑا ہے بن کے تیرے در کا فقیر
نور کے جلوے دل کو بہانے لگے
رحمتوں کے سائے چھانے لگے
نصیب ہوا مجھ کو قرب مدینہ
پا لیا ہو جیسے جینے کا قرینہ