Add Poetry

جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا

Poet: Momin Khan Momin By: amjad, khi
Jun Nikhat E Gul Jumbish Hai Ji Ka Nikal Jaana

جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا

پالغز محبت سے مشکل ہے سنبھل جانا
اس رخ کی صفائی پر اس دل کا بہل جانا

سینہ میں جو دل تڑپا دھر ہی تو دیا دیکھا
پھر بھول گیا کیسا میں ہاتھ کا پھل جانا

اتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہیں فرماؤ
گھر میں مرے رہ جاؤ آج اور بھی کل جانا

اے دل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تو نے کہیں سکھلایا قابو سے نکل جانا

کیا ایسے سے دعویٰ ہو محشر میں کہ میں نے تو
نظارۂ قاتل کو احسان اجل جانا

ہے ظلم کرم جتنا تھا فرق پڑا کتنا
مشکل ہے مزاج اتنا اک بار بدل جانا

حوروں کی ثنا خوانی واعظ یوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا

عشق ان کی بلا جانے عاشق ہوں تو پہچانے
لو مجھ کو اطبا نے سودے کا خلل جانا

کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دکھاتا ہے کافور کا جل جانا

مطلب ہے کہ وصلت میں ہے بوالہوس آفت میں
اس گرمی صحبت میں اے دل نہ پگھل جانا

دم لینے کی طاقت ہے بیمار محبت ہے
اتنا بھی غنیمت ہے مومنؔ کا سنبھل جانا

Rate it:
Views: 1574
24 May, 2019
More Momin Khan Momin Poetry
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
واصف
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا
پالغز محبت سے مشکل ہے سنبھل جانا
اس رخ کی صفائی پر اس دل کا بہل جانا
سینہ میں جو دل تڑپا دھر ہی تو دیا دیکھا
پھر بھول گیا کیسا میں ہاتھ کا پھل جانا
اتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہیں فرماؤ
گھر میں مرے رہ جاؤ آج اور بھی کل جانا
اے دل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تو نے کہیں سکھلایا قابو سے نکل جانا
کیا ایسے سے دعویٰ ہو محشر میں کہ میں نے تو
نظارۂ قاتل کو احسان اجل جانا
ہے ظلم کرم جتنا تھا فرق پڑا کتنا
مشکل ہے مزاج اتنا اک بار بدل جانا
حوروں کی ثنا خوانی واعظ یوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا
عشق ان کی بلا جانے عاشق ہوں تو پہچانے
لو مجھ کو اطبا نے سودے کا خلل جانا
کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دکھاتا ہے کافور کا جل جانا
مطلب ہے کہ وصلت میں ہے بوالہوس آفت میں
اس گرمی صحبت میں اے دل نہ پگھل جانا
دم لینے کی طاقت ہے بیمار محبت ہے
اتنا بھی غنیمت ہے مومنؔ کا سنبھل جانا
amjad
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets