گھاس میں چمکے جو تارا سا
اور پکڑیں تو ہاتھ نہ آئے
اگلے پل میں انگارا سا
جلتا بجھتا اُڑ جائے
اب پودوں کی شاخ پہ بیٹھے
اور پیاری سی آگ جلائے
تاریکی کو چمکا دے
لیکن فوراََ ہی بجھ جائے
یہ جگنو ، یہ جان ننھی سی
کس کے لیے یوں باغ میں آئے
کس سےکھیلے آنکھ مچولی
کس کو بلا کر خود چھپ جائے