جھک گئی جب یہ انا تیرے در سفاک پر
مجھ سے مت پوچھو کہ کیا گزری دل بے باک پر
اس زمیں سے آسماں تک میں بکھرتی ہی گئی
اب نہ سمٹی تو گروں گی ایک دن میں چاک پر
میں رہی اک ہجر میں اور ایک اب ملنے کو ہے
جان سے میں یوں گئی تو خاک ڈالو خاک پر
اب وہاں پھوٹیں گے پھر سے لالہ و گل دیکھنا
ہو رہا ہے خون کا چھڑکاؤ ارض پاک پر
یہ تری یادوں کے جگنو یا کہ آنسو ہیں مرے
جو ستارے سے چمکتے ہیں مری پوشاک پر
کیوں دیار غیر میں مرجھا گئے چہروں کے پھول
برف سی گرتی رہی اس دیدۂ نم ناک پر
جس طرح گزری ہے میری زندگانی کیا کہوں
تو وہاں بیٹھا ہے پھر کس کے لئے افلاک پر