سمندر کے کنارے پر پہنچ کر
سمندر کا جنوں دیکھا
آئے تھے سوچ کر خود کشی کرنے
سمندر کی موجوں نے ہمیں روکا
انہیں بھی تو یہی شکوہ تھا لوگوں سے
دل اپنا بلا کر تنہا چھوڑ جاتے ہیں
مقدر کے بھی فیصلے
بڑے خوب ہوتے ہیں
کبھی خود کبھی اس کو
چھڑا دیکھا ہے غصے میں
سنا تھا، دیکھ لیا
ریت کے گھروندے
بڑے ہی نازک ہوتے ہیں
جو لہروں کی شرارت سے
بکھر جاتے ہیں فوراً ہی
یہی تو جیون ہے پیارے
ذراسا سوچ لے اس کو
کچھ اسی طرح سے تیری بھی
یہ زندگانی ہے
نہ ہو بدگماں ایسے
سمجھ جا حکمتِ ربی
جو تیرا ہے، وہ تیرا ہے
وہی تو رب کی مُنشاء ہے
جو ہوا اسکی رضا پہ راضی تُو
یہی تو ایمانِِ کامل ہے
کہا تھا اقبال نے یہی
یقین محکم عمل پہم محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں