جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
Poet: عمیر نجمی By: Zain, Peshawar
جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقش قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحد مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
جبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا
سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہے
وہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا
مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوا
میں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا
ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہا
جدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا
شروع دن سے گھر میں سن رہا تھا اس لئے
سکوت میری مادری زبان بن گیا
اور ایک دن کھنچی ہوئی لکیر مٹ گئی
گماں یقیں بنا یقیں گمان بن گیا
کئی خفیف غم ملے ملال بن گئے
ذرا ذرا سی کترنوں سے تھان بن گیا
مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا
نصاب عشق پہ واجب زکوٰۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبان سکوت بسم اللہ
خموشیوں کی مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہور ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا
میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا
مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا
مجھ سے کچھ بن نہیں پایا تری تصویر کے بعد
مشترک دوست بھی چھوٹے ہیں تجھے چھوڑنے پر
یعنی دیوار ہٹانی پڑی تصویر کے بعد
یار تصویر میں تنہا ہوں مگر لوگ ملے
کئی تصویر سے پہلے کئی تصویر کے بعد
دوسرا عشق میسر ہے مگر کرتا نہیں
کون دیکھے گا پرانی نئی تصویر کے بعد
بھیج دیتا ہوں مگر پہلے بتا دوں تجھ کو
مجھ سے ملتا نہیں کوئی مری تصویر کے بعد
خشک دیوار میں سیلن کا سبب کیا ہوگا
ایک عدد زنگ لگی کیل تھی تصویر کے بعد






