عجز و انکساری و تحمل سے جیا جائے
روشن مستقبل کی امیدیں لیے جیا جائے
یہ جو مایوسی کے گہرے اور گنھے سے بادل ہیں
کیا ھی بہتر ہو جو اِن کو روند کے جیا جائے
یہ جری قوی سپاہی ، یہ نڈر اور جانثار
حوصلہ اِن کے لیے، اِن کے لیے جیا جائے
اے وطن کے جانشیں، تجھے وطن کا واسطہ
سر بلندیِ وطن کے واسطے جیا جائے
ٹمٹماتے ، جگمگاتے ، جھلملاتے یہ تارے
کیوں نہ منزل کی طرف اِن کو کیے جیا جائے
گر تجھے یقیں ہو خدائے زوالجلال پہ
پھر ہوا ، عثمانؔ جیسے بھی چلے جیا جائے