جیسا جیسا ہم نے چاہا ویسا ویسا ہو گیا
دھیرے دھیرے ہولے ہولے رفتہ رفتہ ہو گیا
اب محبت بھی نہیں ہے اور شکایت بھی نہیں
بات مانو یا نہ مانو لیکن ایسا ہو گیا
دیکھتے ہی دیکھتے احباب رخصت ہو گئے
دیکھتے ہی دیکھتے جگ میں اندھیرا ہو گیا
کس قدر شفاف تھا جب تک تری آنکھوں میں تھا
آئنے تک آتے آتے عکس میلا ہو گیا
کون کہہ سکتا ہے دل میں آگ کس لمحے لگی
پل دو پل کے کھیل میں اک پل زیادہ ہو گیا
کس طرف سے رات آئی کس طرف لے کے گئی
میں نے تو سگریٹ جلائی اور سویرا ہو گیا
منفرد ہوتا تو مجھ کو کیوں کوئی پہچانتا
سچ تو یہ ہے میں بھی عامرؔ سب کے جیسا ہو گیا